Explore
Also Available in:

کیا ڈارون دستبردار ہوا؟

by Russell M. Grigg

Photo: Warwick Armstrong Lady Hope graveyard
Lady Hope’s grave in Rookwood Cemetery, Sydney, Australia.

چارلس ڈارون ۱۹ اپریل ۱۸۸۲ کو۷۳ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ یہ نہایت افسوسناک تھا کہ وہ ایک غیر ایماندار کے طورپر اِس دنیا سے رُخصت ہوا ، اور سالوں بعد اُس کے پیچھے زمین پر بہت سی کہانیاں موجود تھی کہ ڈارون بستر مرگ پر انکشافات کو بیان کرتا ہوا مر گیا ۔ یہ کہانیاں بہت جلد ہی مئی ۱۸۸۲میں موضوعات بن گئیں۔1 تاہم، سب سے زیادہ جانی جانے والی لیڈی ہوپ کی کہانی تھی، جس نے دعویٰ کیا کہ اُس نے چارلس ڈارون کی خوابگاہ کو ڈون ھاؤس2 میں ۱۸۸۱ کو موسم خزاں میں وزٹ کیا۔ اُس کا بیان حلفی تھا کہ جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ عبرانیوں کے خط کا مطالعہ کر رہا تھا، تب وہ افسردہ ہو گیا جب اُس نے پیدایش میں تخلیق کو اُجاگر کیا، اور تب اُس نے مجھے دوسرے دن آنے کی بھی دعوت دی تاکہ ہم یسوع مسیح پرلوگوں کے سامنے یعنی اُس کے کرایہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ باغ میں جو ۳۰ لوگوں پر مشتمل تھے، جو وہ کہتا تھا بات کر سکیں۔ یہ کہانی پہلے پہل ۵۲۱ الفاظ پر مشتمل آرٹیکل کے طور پر امریکن بپٹسٹ جنرل، دی واچ مین ایگسامینر3 میں چھپی، اور تب سے اب تک بہت سی کتابوں، میگزینوں اور ٹریکس میں چھپ چکی ہے۔

ان کہانیوں کے ساتھ جو اصل مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ڈارون کی سارے خاندان کے افراد نے اِن کا انکار کیا۔ فرانسیس ڈارون نے ۸ فروری ۱۸۸۷ کو تھامس ہکسلی کو لکھا، کہ وہ رپورٹ جو چارلس نے اپنی بستر مرگ پر انکشافات کے متعلق بیان کی تھی ’جھوٹی اور بغیر کسی بنیاد کے ہے‘4 ، اور ۱۹۱۷ میں فرانسیس نے زور دیا کہ اُسکے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جس پر وہ ایمان رکھتا تھا کہ وہ ]اُس کا باپ[ کبھی اُس نے خُدا کے بارے میں لاتعلقی کو بیان کیا ہو‘۔5 چارلس کی بیٹی ہین ریٹا لچ فیلڈ نے لندن کے ہفتہ وارجریدے کے صفحہ نمبر ۱۲ میں لکھا ، دی کرسچین، ۲۳ فروری ۱۹۲۲ تک، ’میں بستر مرگ کے پاس تھی۔ لیڈی ہوپ اُس کی بیماری کے آخری لمحات میں موجود نہیں تھی، یا بیماری میں کسی بھی وقت۔ میں یقین سے کہتی ہوں کہ اُ س نے کبھی اُسے دیکھاتک نہیں تھا، اِس لئے وہ اُس کے ایمان یا اُس خیالات کے حوالے سے کسی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتی۔ وہ اپنے کسی بھی سائنسی تحقیق سے انحراف نہیں کر سکتا تھا، آیا یہ پہلے تھے یا بعد میں ۔۔۔ ساری کہانی میں سچائی نہیں پائی جاتی‘۔6 لیکن کچھ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی لیڈی ہوپ نہیں تھی۔

پس ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے؟

Photo: Warwick Armstrong Lady Hope headstone

The inscription on the gravestone.

ڈارون کی سوانح حیات لکھنے والا، ڈاکٹر جیمز مورے، یوکے کی اوپن یونیورسٹی میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر لیکچرار تھا، اُس نے ۲۰ سال براعظموں میں مواد کی تلاش میں صرف کیے۔ اُس نے ۲۱۸ صفحات پر مشتمل کتاب کو ترتیب دیا جو اِس بات کا مشاہدہ کرتی ہے کہ ’ڈارون لیجنڈ‘ نے کیا کہا۔‘7 وہ کہتا ہے کہ ایک لیڈی ہوپ تھی۔ ۱۸۴۲ میں الیزبتھ ریڈ کاٹن میں پیدا ہوئی، اُس نے ایک رنڈوے، ریٹائرڈ ایڈمرل سر جیمز ہوپ سے ۱۸۷۷ میں شادی کی۔ وہ خیمائی خوشخبری میں مصروف تھی اور ۱۸۸۰ میں کینٹ میں بیمار اور بوڑھے لوگوں کی تیمارداری کرتی تھی، اور سڈنی، آسٹریلیا میں ۱۹۲۲ کو کینسر کی وجہ سے مر گئی، جس کا مقبرہ آج بھی ہمارے درمیان دیکھنے کے لئے موجود ہے۔8

مورے نتیجہ نکالتا ہے کہ لیڈی ہوپ نے شاید بدھ کے دن، ۲۸ ستمبر اور اتوار، ۲ اکتوبر ۱۸۸۱ کو چارلس کا پتہ لیا ہو، تقریباً یقین دہانی سے کہتے ہوئے کہ جب فرانسیس اور ہین ریٹا وہاں موجود نہیں تھے، لیکن اُس کی بیوی، ایما، شاید موجود تھی۔ 9 وہ بیان کرتا ہے کہ لیڈی ہوپ ایک ماہر داستان گو تھی، جو تیزی سے جاری گفتگو اور اہم لمحات کو بیان کر سکتی تھی، اور روحانی احساس کے ساتھ دیکھ سکتی تھی۔10 اُس نے نکتہ اُٹھایا کہ اُس کی کہانی وقت اور جگہ کے لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل تھی، حتیٰ کہ ٹھوس ثبوت – چارلس ڈارون اپنے مرنے سے چھ مہینے پہلے بستر پرنہیں تھا، اور سمر ہاؤس بھی بہت چھوٹا تھا جس میں تیس لوگوں کی گنجائش بمشکل تھی۔ کہانی کا حقیقی رُخ، تاہم، یہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتا کہ چارلس انکشافات کا حامی تھا یا کہ وہ مسیحیت کو پرجوش طریقے سے قبول کرتا تھا۔ وہ نہ صرف کہتا تھا کہ اپنی جوانی کی قسمت کی امیدوں کے بارے میں تشویشناک تھا اور وہ چند لوگوں کی عبادتی میٹنگ کے حق میں تھا۔ منسوب دستبرداری /بدلاؤ خوبصورت ہیں جب دوسرے آیا کہانیوں کےو سیلہ سے اِسے پڑھیں یا اپنے لئے اِنھیں بنائیں۔ مورے اِسے ’پاک بناوٹ‘ بیان کرتا ہے۔

یہ بھی پایا گیا ہے کہ اُس کی شادی شدہ زندگی کا زیادہ تر حصہ ایما، چارلس کے غیر مذہبی عقیدہ کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا تھی، اور چاہتی تھی کہ وہ بہتر طور پر اِس کہانی کو منظر عام پر لائے، اگر ایسا تھا۔ لیکن اُس نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ پھر بھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈارون باز نہ آیا، اور یہ قابل رحم تھا کہ اِس دن تک جب لیڈی ہوپ کی کہانی ٹریکس میں چھپنے کے بعد منظر عام پر آئی اور قابل فہم لوگوں تک پہنچی۔

References

  1. James Moore, The Darwin Legend, Baker Books, Grand Rapids, Michigan, 1994, pp. 113-14. Return to text.
  2. Down House retained the spelling of the old name of Darwin’s village, which was changed to Downe in the mid-nineteenth century to avoid confusion with County Down in Northern Ireland. Source: Ref. 1, p. 176. Return to text.
  3. Watchman Examiner, Boston, 19 August 1915, p. 1071. Source: Ref. 1 , pp. 92-93 and 190. Return to text.
  4. Ref. 1, pp. 117, 144. Return to text.
  5. ibid, p. 145. Return to text.
  6. ibid, p. 146. Return to text.
  7. ibid. Return to text.
  8. After the death of Admiral Hope in 1881, Lady Hope married T.A. Denny, a ‘pork philanthropist’, in 1893, but preferred to retain her former name and title (Ref. 1, pp. 85; 89-90). Return to text.
  9. Ref. 1, p. 167. Return to text.
  10. ibid, p. 94.

Helpful Resources