Explore
Also Available in:
قیمتی اعداد

قیمتیاعداد

ازکارل وی لینڈاور رسل گرگز

مترجم:مبشرمائیکل عرفان

زمینپر خرگوش کیاکرتے ہیں، پارتھینون، حساباتی،سورج مکھی، آرٹاور پائن کونایک دوسرے کےساتھ جو کرتےہیں؟ وہ تمامایک دوسرے کےساتھ حسین طریقےسے امتزاج رکھتےہیں، دلکش خوبصورتیکو پیش کرتےہوئے، جو کہابھی تک پوریدنیا میں صحیحطور پر سمجھےنہیں جا چکےہیں۔


اٹلیکے ریاضی دانلی نارڈو فی بونیکی (’آرچی‘کے ساتھ نظمیں)،بعد میں لی نارڈوپی سانو کے طورپر بھی جاناجاتا ہے (لینارڈو پی سا کارہنے والا، سی۔۱۱۷۰۔ ۱۲۴۰)نےایکجوڑے کو لے کر، خرگوشوں کےجوڑوں پر بڑھتیہوئی پیدایشیشرح پر سٹڈی کی۔ اس نے جانا کہجوڑوں کے اعدادایک خاص اعدادوشمارکے ساتھ بڑھتےہیں جس میں ہرنمبر پہلے دونمبروں سے جاریدونمبروں کوجمع کرنے سےحاصل ہوتا ہے۔جیسے کہ، ۰، ۱،۱، ۲، ۳، ۵، ۸،۱۳، ۲۱، وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔ یہ فی بونیکی سیریز کےطورپر جانی جاتیہے۔

اگرآپ سورج مکھیکے پھول کے سرپر بیجوں کودیکھیں، آپدیکھیں گے وہسپرائل کے دوجوڑوں کے سیٹمیں جڑے ہوئےہیں، ایک سیٹگھڑی کی سوئیکی سمت میں ہے،جب کہ دوسرا اُسکی مخالف سمتمیں۔ سپرائلاعداد کو ایکسمت میں جاتےہوئے گِنیں،اور عدد دوسریطرف جائے گا۔آپ دیکھیں گےکہ ہمیشہ دو عددملیں گے جو کہایک سے دوسرےمیں فی بو نیکیسیریز میں پایاجاتا ہے (مثلاً۸ اور ۱۳)۔پائن ایپل کونمیں جو بنی ہوئیہے میں وہی ترتیبپائی جاتی ہے،سنیل شیل سپرائلکی صورت میں،جانور کے سینگوںکی طرح اور سٹیمکے پتے کے بڈ کیترتیب میں بھی۔1

نئیکپیوٹر ٹیکنالوجی2نےظاہر کر دیا ہےکہ کسی بھی گروپکے مختلف سائزکوے ہونے میںزیادہ تر سپرئرلسیریز کا اثرہوتا ہے جو کہفی بو نیکی ترتیبسے وابستہ ہے– لیکن ابھی تککوئی نہیں جاسکا ہے کہ ایساکیوں ہے۔3



فی بو نیکی اعداد بوٹنی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پائن ایبل کے اوپر ڈوڈز کی ترتیب (اوپر دہنی طرف) اور سورج مکھی کے پھول کے پیٹلز (اوپر بائیں طرف) سب فی بو نیکی ترتیب رکھتے ہیں۔

فنکاروںکو خوش کرنا

ابھیتک قیمتی سیکسنکہلانے والا(یاقیمتی ریشو)،سے بہت سارےفنکار اور انجنیرواقفیت رکھتےہیں، یہ بھی فیبو نیکی طریقہکار ہی کہلاتاہے۔ زیادہ ترلوگ، اگر اُنھیںپسند کرنے کےلئے کہیں ایکریکٹنیگل کیسیریز میں سےتوآنکھ جو سب سےزبادہ بھلا لگےگا، پسند کرئےگا دونوں اطرافکی ریشو کو پسندکرتے ہوئے (جوکہ ایک ہے، بڑیسائیڈ تقسیمکرے گی چھوٹیسائیڈ کو)تقریباً1.62.4ہے۔دوسرے الفاظمیں، لمبی سائیڈ1.62چھوٹیسے بڑی ہے۔ قدیمیونانی عمارتکا سامنے والاحصہ ری کٹینگلکو بیان کرتاہے ، دی پارتھینون (نیچے)،اطراف کو رکھتےہوئے جو کہ ’قیمتیریشو‘ کہلاتیہیں۔ یہ مقداریںبہت زیادہ فناور آرکیٹیکٹمیں ملتی ہیں۔




اوپر: ایتھنز میں واقع پارتھی نون۔ اونچائی بمقابلہ لمبائی کی ریشو جو اس کے سامنے ہے تقریباً 1: 1.62 – ’قیمتی ریشو‘ کے مطابق ہے۔

حساباتیتجربات دکھاتےہیں کہ ’لوگ نہچاہتے ہوئے بھیایسی مقداروںکو اہمیت دیتےہیں جو تقریباًقیمتی سیکشنکہلاتی ہیں۔‘5یہقیمتی ریشو(1.62,یا، 1.618چارشاندار اعدادپر مشتمل)انسانیآنکھ کو بھلیلگتی ہیں۔ اختیاراتیکام جو فن پرہوتا ہے اورآرکی ٹیکٹ اسےبنانے کا دعویٰکرتے ہیں، مثالکے طور پر، ’قیمتیسیکشن باقی تماممقداروں پر گہرااثر رکھتا ہے‘،جس میں دعویٰکہتا ہے، ’ڈیٹاکی بڑی مقداراِسے سراہتیہے، دونوں قدرتیاور فن کی جانبسے ۔۔۔۔۔‘6

جبہم فی بونیکیسیریز کو لیتےہیں (صفرکو نظر اندازکرتے ہوئے)،ہر نمبر کو ایکپر تقسیم کرتےہوئے جو اِس سےپہلے حاصل ہوتاہے:1, 2, 1.5, 1.6, 1.625, 1.615, 1.61،1.617,1.619, 1.617, 1.618 اوراِسی طرح دوسروںکو جمع کرتےہوئے۔ اِبتدائیچند ہندسوںکےبعد، اعدادلہراتے ہوئے1.62کےگرد ملیں گے۔تین شانداراعداد کے لئے،یہ اِس قیمتیریشو کے قریبترین ملیں گے۔ابھی تک کوئینہیں جان سکاہے کیوں فی بونیکیریشو پر تقسیمکرنے یہ مقداریںحاصل ہوتی ہیںجو کہ آنکھوںکو بھلی معلومہوتی ہیں ۔

زندہچیزوں کی طرفلوٹتے ہوئے،ہم دیکھتے ہیںکہ جب آپ سپرائرلکو گنتے ہیںسورج مکھی کےسر کو ایک طرفسے، اور تب دوسریجانب، بڑے اعدادکو چھوٹے اعدادپر تقسیم کرتےہوئے یہی قیمتیریشو مہیا کرتےہیں۔

غیروضاحتی اشتراک

کیوںیہ سب کچھ بھلالگتا ہے اور غیروضاحتی اشتراکایسی چیزوں کےدرمیان جو ریاضیاتیطور پر خوبصورتاور چیزیں جوانسانی آنکھکو اچھی لگتیہیں؟ اور کیوںیہ زندہ اشیامیں واپس آتیہوئے اعداد وشمار ملتے ہیں؟

ایکریاضی دان ، کاجب ٹیلی ویژنپر اِس معاملےمیں انٹرویوکیا گیا تو اُسنے کہا،

میںذاتی طور پریقین رکھتا ہوںکہ ایک خوبصورتوجہ موجود ہےجو نظام کو قائمکرتی ہے۔ ہر چیزبڑی چالاکی سےمنظم کی جاچکیہے، جس طرح کہمجھے ذاتی طورپرشوق ہے، واقعہوتا ہے جو اتفاقاًواقع ہوچکا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیںکہ یہ سب کچھخُدا کی طرف سےبنا ہے، یا پھرآپ اِس پر کسیدوسرے طریقےسے ایمان رکھسکتے ہیں کہایسا ہوا، میںپراعتماد نہیںہوں، لیکن ہاں،اِس کے پیچھےکوئی نہ کوئیبڑی طاقت موجودہے، لیکن کونہے مجھے اِس کاپتہ نہیں۔‘7

بدقسمتی سے،ہمارےنوجوان لوگانسانی اورانکشافاتیگراوٹوں میںگر جاتے ہیں جوکہ ذہین نمونوںکو غلط کرنے کیکوشش کرتے ہیں۔مثلاً، یہ عامطور پر دعویٰکیا جاتا ہے کہقدرت (موقع)انسانکے دماغ کی ایجادہے، جس نے ریاضیکو ایجاد کیا۔8پھرکیسے ہوا کہ ہموہی ریاضیاتینقطہ نگاہ قدرتمیں پاتے ہیںجو ہماری خوبصورتیکی حس کو بھاتیہے۔

یقیناًیہ زیادہ معقولنتیجہ لگتا ہےجو باہمی اشتراکموجود ہے کیونکہقدرت، ریاضیاور انسانی ذہن،اپنی خوبصورتیکےبلند تخیل کے ساتھ، ایکبڑا تعلق رکھتیہے – یہ تمامخُدا کی تخلیقکردہ مصنوعاتہیں، ماہر ڈیزائنرکی۔


کیسے ایک گولڈن زاویہ بنتا ہے۔ پہلے مربعی اے بی سی لکھیں۔ پھر، درمیانی ایم کو اے بی کی جانب ڈھونڈیں۔ پھر، ایک لکیر کھینچتے ہوئے اے بی کو ای سے ملائیں، تب وہ ایم ای=ایم سی بنے گا۔ زاویہ اے ای ایف ڈی گولڈن زاویہ ہے۔ اے بی کو گولڈن زاویے پر تقسیم کرتے ہوئے، ایک لکیر کو جی سے اے ای پر کھینچیں تب ای ایف =ای جی بنے گا۔

<

font size="3">Refere

  1. Encyclopædia Britannica 7:279, 1992. Apparently, Fibonacci numbers also feature in the genealogy of descent of the male bee, but no details are provided. Return to text.

  2. This was stated without detail on a Quantum television program, screened by Australian Broadcasting Commission, November 13, 1991. Return to text.

  3. New Scientist, April 18, 1992, p. 18. Also Physical Review Letters 68:2098. French physicists have built a physical model which seems to show that such ‘Fibonacci spiralling’ is a result of the system’s keeping the energy required for the growth of its parts (for example, the seeds) to a minimum. Return to text.

  4. Dividing any line (AB) by a point (C) such that AB/AC = AC/BC will ensure that these fractions equal the golden ratio, no matter how long the line. Return to text.

  5. The Oxford Companion to Art, Ed. Harold Osbome, First Edition, Oxford University Press, Oxford, 1978, p.489. Return to text.

  6. Ibid. p.488. This claim could still be so, even if it should be claimed that the Parthenon proportions mentioned were deliberately chosen because of Greek fascination for numbers and geometry. Leonardo da Vinci was fascinated by this Golden Section, or ‘divine proportion’ as it was also called, particularly in relation to the proportions of the human body. See also The Geometry of Art and Life by Matila Ghyka, and The Divine Proportion by H.E. Huntley, both available in Dover editions. Return to text.

  7. The speaker was Dr Michael Gore of the National Science and Technology Centre, Canberra, Australia (Ref. 2). Return to text.

  8. See James Nickel, ‘Why Does Mathematics Work?’, Journal of Creation 4:147–157, 1990. Return to text


(Availablein Punjabi)