Explore
Also Available in:
’بچہ آدمی کا باپ ہوتا ہے‘

بچہآدمی کا باپہوتا ہے‘
کیانوجوان چارلسڈارون کا رویہاُس کی بعد میںآنے والی تھیوریکو سمجھنے میںمدد کرتا ہے؟

byGrahamFisher

Translatedby Evangelist Michael irfan

Alsoavailable in Punjabi



آدمیکی زندگی کیترقی میں لڑکپنایک بہت ہی خاصموقع ہوتا ہے۔جی سوٹس کہتاہے، ’مجھے ایکبچہ سات سال کےلئے دیں، تب آپاُس کے ساتھ بعدمیں جو کچھ چاہےکر سکتے ہیں۔‘1وہجانتا ہے کہ بچپن سے سات سالتک پہنچنے تک،اُس کی شخصیتقدرے تعمیر ہوچکی ہوتی ہے،حتیٰ کہ اُس کیاُس عمر میں،جب اُسے ایکآدمی کے طورپر’دیکھتے‘ ہیں۔اِس طرح وہ اُسمیں بہت سا وقتاورکوششیں صرفکرتے ہیں رومنکیتھولک تعلیماتکو ایک جوان شخصکے ذہن نشینکرتے ہوئے۔ ذہنمیں اِس اصولکے ساتھ، ہوسکتاہے یہ چارلسڈارون کی جوانیکے رویے کو ختمکرنے کے لئے ہو۔

اُنکی ڈارون2کیبہترین بائیوگرافی میں،ڈیسمنڈ اور مورےاِس لحاظ سے کچھ وثوق کےساتھ مختلفذریعوں سے باتکرتے ہیں:

ایجاداتغلط جوانی کوعیاں کرتے ہوئےاصلی روشنی تکپہنچنے میںکارگر ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ وہ اپنےسکول میں کچھبھی کر سکتا تھا’’حقیقی خوشیاور مسرت کےساتھچونکاتے ہوئے،‘‘اور اُس کی اختراع’’جھوٹ۔ ۔ ۔اُسے خوشی دیتیتھی، غم کی طرح۔‘‘وہ قدرتی تاریخکے بارے میںکہانیاں سناتاتھا، عجیب پرندوںکی داستانیں،حتیٰ کہ فخر کےساتھ کہتے ہوئےکہ وہ پھولوںکے رنگوں کوتبدیل کر سکتاہے۔ ایک دفعہاُس نے ایک کہانیاخذ کی یہ ظاہرکرتے ہوئے کہوہ کتنا سچ کوظاہر کرنے پرقادر ہے۔ یہ ایکبچے کی دنیا کوحیران کر دینےوالی کہانیتھی۔‘3

یہبائیو گرافیتقریباً ڈارونکی طرح تھی،ابھی تک اُس کیناکامی کی کوئیداستان نہیںتھی، جو کہ بےشک انسانوں کیناکامی میں عامہو سکتی تھی۔ڈیسمنڈ اور مورےبالغ ڈارون کےبارے میں کہناجاری رکھتے ہیں،’اُس نے اپنےجیالوجسٹ ساتھیوںمیں سے اِس پہچانکو کریدا ]Sic [ — اپنیذمہ کو نبھاتےہوئے – اور یہاُسے بیگل رپورٹکو ختم کرنے کیطرف لے گئی۔‘4ڈارونمطلوبہ روشنیکو چاہتا تھا؛وہ پسندیدگیچاہتا تھا؛ وہاپنے ساتھیوںسے سراہنا چاہتاتھا اور یہ اُسکی زندگی کا اہمسنگ میل تھا۔وہ الفریڈ رسلوالس کے خیالاتکی تقلید کرنانہیں چاہتا تھا(جواُسی خیال کاحامی تھا جسےبعد میں ڈاروننے ثابت کیا)ایکناقابل تسخیراونچائی جو اُسنے پہلے نہ کبھیکی ہو، چنانچہاُس نے جلدی سےاُس کی پرنٹنگکرنا شروع کردیتاکہ والس اُسےجاننے سے پہلےدھمکا نہ سکے۔

ڈاروننے ایجا دنہیںکیا، نہ کچھکھوجا، نہ ہیانکشافات؛ یہہوا میں رہنےکا وقت تھا (دیکھیںڈارون:اپنےبڑے ابو سے اِسایشو کو سیکھتاہے)۔اُس نے موڈ کوپکڑ لیا، اِسےمشہور کر دیااور اِسے سراہا۔مسئلہ جو تھاوہ یہ تھا کہحقیقی طور پرایک قسم کو دوسریقسم میں تبدیلکرنے کا حامیتھا۔

ایکواضح ورائٹیموجود تھی(شایدحتیٰ کی نسلیاقسام)بائیولوجیکلاقسام کی صورتمیں (بائبلمقدس کی اصطلاحکو استعمال کرتےہوئے،پیدایش ۱:۱۱،۲۱،وغیرہ۔)لیکنابھی تک ایکرینگنے والےجانور کا پرندےمیں بدل جانےکی شہادت موجودنہیں تھی، یامچھلی کا دونوںخشکی اور تریمیں رہنے والےجانور میں بدلجانا اور اِسیطرح اور کئی۔اور اِسی طرحبدمانس کے لئےکوئی شہادتموجود نہیں تھیکہ یہ مخلوقانسانوں میںبدل گئی۔ اُسکے علم میں خلااُس کی بڑھتیہوئی کہانی کوزیادہ بڑھا نہیںسکتا تھا۔ کیایہ آدمی ،’بڑھتیہوئی دنیا میںتبدیلی کا راستہ‘ہے؟ میں خیالکرتا ہوں کہ اُسکی کتابیں آندی اوریجن آفسپیشیز اور دیڈیسنٹ مین اُسکی جوانی یالڑکپن کی ایجاداتکے ساتھ کوئیواسطہ نہیںرکھتی ہیں ’اصلیاور حقیقی خوشیکی وجہ اور اچنبھا‘۔

ڈارونایک بچے کے طورپر اپنے راستوںسے نہیں ہٹا تھاجیسے ’دنیا کوسلجھانا۔‘ ۱۸۵۹میں، جب اُس کیپہلی کتاب چھپی،تاہم، دنیا ایکبہت ہی شاطرنوجوان سے ملی،جو کچھ آج کینسبت زیادہبدلنے کی صلاحیترکھتا تھا۔ڈارون ہو سکتاہے کہ خود کوبھی دھوکہ دےچکا ہو، اور بےشک خود کو ترغیبدے چکا ہو کہتبدیلی سچی تھی۔

ڈارونکے پاس بہت سےمقاصد تھے، شایدزیادہ تر تذبذبکا شکار، تبدیلیکا رُجحان جوبدلنے کا خیالرکھتا تھا جسمیں دنیا ملوثتھی (مثلاً،خودبخود بنی)۔ایک کے لئے، اگرمسیحی کتاب مقدسسچی تھی، تب اُسکی تمام کی تمامایجادات سنگینتنقید کی حقدارتھی، جنھیں وہ’لعنت وملامتعقیدہ‘5 گردانتاتھا۔‘

۱۸۵۹میں بہت سارےغیر ایماندارتھے جو اِس باتکی کھوج میں تھےکہ کیسے وہ خُداکا انکار کرسکیں جو اُنھیںتخلیق کر چکاتھا۔ اُنھوںنے انکشافاتکو عیاری سےاختیار کیا۔

ڈاروننے خود کو ایکبے غرض سائنسدانکے طورپر پر پیشکرنے کی کوششکی، جس کا مقصدصرف سچ کو عیاںکرنا تھا چاہےاُس کی تلاش میںاُسے کہیں بھیکھوجنا پڑتا،اُس کی قیمتچکانی پڑتی،اور آج ہم اننتائج کو بھگترہے ہیں۔

References

Titlequote from: William Wordsworth, MyHeart Leaps Up,

line 7, 1807.

  1. Anon. Attributed as a Jesuit maxim., Leans Collectanea, Vol.3, p. 472, 1903, (quoted in the Oxford Dictionary of Quotations, Vol. 4, 1992).

  2. Darwin, published by Michael Joseph, London, 1991.

  3. Ref. 2, p. 13.

  4. Ref. 2, p. 308.

  5. Darwin’s real message: have you missed it?’, Creation 14(4)16–19, 1992.

GrahamFisher,B.A. (Hons), Dip.Ed., M.Ed., is a former geography and geology schoolteacher. He is now in full-time evangelism for his local church inAylesbury, UK. Returnto top.