Explore
Also Available in:
Darwin’s arguments against God

خ

Also available in Punjabi, English

ُدا کے خلافڈارون کا نقطہٴنگاہ

کیسےڈارون نے مسیحیتکی الہٰی تعلیماتکو رد کیا

ازرسل گرگز

مترجممبشر مائیکلعرفان

فوٹواز وِکی پیڈیا

چارلسڈارون

چارلسڈارون اپنے دَورکی سوچ کے ’ذہیننمونہ‘ کو قبولکرتے ہوئے جوانہوا – ولیم پالیکی مشہور دلیلہے کہ ایک گھڑیکا نمونہ عائدکرتا ہے کہ یقیناًایک ذہین گھڑیساز ہوگا، اوراِسی طرح کائناتکا نمونہ عائدکرتا ہے کہ یقیناً ایک ذہین خالق1ہوگا۔ اِس کے متعلق، ڈارون نے لکھا، ’میں نہیںسوچتا میں نےمشکل سے کبھیپالی کی ’’نیچرلتھیالوجی‘‘2سےزیادہ کسی کتابکی تعریف کی ہو۔ میں تقریباًپچھلی بار دلسے کہہ سکتا ہوں۔‘3


تاہم،ڈارون نے اپنیبقیہ زندگی کازیادہ تر حصہکسی مقصد یارہنما ذہنیتکی ضرورت کےبغیر فطرت کےاندر نمونے کیوضاحت کرنے کیکوشش کرتے ہوئےگزارا ۔ اُس نےاپنے آپ پر بےدین کا لیبللگایا ، اوراپنے ’مذہبیعقیدہ کو اپنیسوانح عمری4میںترک کر دیا، جو۱۸۷۶ میں لکھیگئی جب وہ ۶۷سال کا تھا۔


۱۔ ڈارون نے سچیتاریخ کے طورپرپیدایش کو ردکیا


ڈاروننے جتایا کہمختلف انواع بے حد آہستہارتقاکے ذریعےپیدا ہوئی تھی۔ تاہم ، وہ جانتاتھا کہ پیدایشنے سکھایا کہخُدا علیٰحدہفوری حکموں سےپودوں ، جانوروںاور انسان کوپیدا کر چکا تھا۔ دونوں نکاتسچ نہیں ہو سکتےتھے ۔ پس آیااُس کا نظریہیا پیدایش غلطیپر تھے ۔ لیکنکون؟ اُس نےلکھا:


میںآہستہ پہنچ چکاہوں ، اِس وقت]جنوری۱۸۳۹، جب وہ ۲۹سال کا تھا [،یہ دیکھنے کےلئے کہ پُراناعہد نامہ اپنیدنیا کی بظاہرجھوٹی تاریخسے ، بابل کےبُرج ، نشان کےطورپر دھنک کےساتھ ، وغیرہوغیرہ ، اورخُدا کی ایکبدلہ لینے والےظالم کے جذباتکی خصوصیات سے، یہ بات ہندوؤںکی (Sic) مقدسکتاب سے زیادہقابل بھروسہنہیں تھا ، یاکسی جاہل کےعقائد سے ۔ ‘4


تبصرہ:ڈاروننے غلط نظریہقبول کیا ۔ ’دنیاکی بظاہر جھوٹیتاریخ ‘ وہ نہیںجو پیدایش میںدرج ہے ، بلکہیہ اُس کا نظریہہے اور اِسےعرصہٴ دراز کیضرورت ہے۔


۲۔ڈارون نے مسیحیتکے اندر معجزاتکو رد کیا

معجزاتکے متعلق جس کےساتھ مسیحیتکی تائید ہوتیہے‘ اُس نے لکھا،

جتنازیادہ ہم فطرتکے مخصوص قوانینکوجانتے ہیںاُتنا زیادہناقابل یقینمعجزات بن جاتےہیں ، -یعنیاُس دَور کےانسان جاہل تھےاور اِس حد تکبھولے بھالےتھے جنھیں ہمحتیٰ کہ سمجھنہیں سکتے ، -یعنیاناجیل واقعاتکی ترتیب کےساتھ لکھی ہوئیثابت نہیں ہوسکتی ، -یعنیوہ بہت ساری اہمتفصیلات میںاختلاف کرتیہیں ، اتنی زیادہاہم جیسا کہمجھے ماننا پڑتاہے کہ آئینیشاہدوں کی معمولیغلطیاں موجودہیں ؛ -ایسےتاثرات جس طرحیہ ہیں ۔۔ ۔ میںآہستہ آہستہمسیحیت پر الہٰیمکاشفہ کے طورپربے اعتقادی تکپہنچا۔ ‘4


تبصرہ:مسیحیتبے شک معجزاتکا مذہب ہے ۔خُدا کے تخلیقیکام سے لے کر جوپیدایش۱میںدرج ہیں ، خروجمیں مصر سے اسرائیلکی معجزانہرہائی تک ، اناجیلکے اندر مسیحکے بہت سارےمعجزات تک ، اوراعمال میں شاگردوںکے معجزات تک ، ہم خُدا کومصروف عمل دیکھتےہیں جو ہمارےتصور سے عظیمتر ہے جسے ہمسمجھ سکتے ہیں۔ وہ جو اپنےفرمائے گئے کلمہکی بدولت ہر شےکو وجود میںلایا (پیدایش۱)یقینیطورپر بعد میںقانوناً اختلافکرنے کے قابلہے اپنی مرضیکے پورا ہونےکی وجہ سے اُسکی تخلیق میںکیا واقع ہوتاہے ۔


ڈارونایک دائرے میںبحث کر رہا ہے:وہذرائع کو منسوخکر کے معجزاتکو منسوخ کرتاہے ؛ لیکن وہذرائع کو منسوخکرتا ہے کیونکہوہ معجزات پرمشتمل ہیں۔


ڈارونکی دلیلیں فیلسُوفیطورپر بدحالہیں ۔ وہ ظاہراًجانتا ہے کہتمام معجزاتکی رپورٹیںجھوٹی ہیں کیونکہوہ جانتا ہے کہفطرت کے قوانینمخصوص ہیں ۔تاہم، وہ جانسکتا ہے کہ فطرتکے قوانین مخصوصہیں صرف اگر وہپیشتر جانیںکہ تمام معجزاتکی رپورٹیںجھوٹی ہیں ۔ پسوہ ایک دائرےمیں بحث کر رہاہے :وہذرائع کو منسوخکر کے معجزاتکو منسوخ کرتاہے ؛ لیکن وہذرائع کو منسوخکرتا ہے کیونکہوہ معجزات پرمشتمل ہیں۔


وہخود پسندی سےوسیع دھوکے کوبھی پیش کرتاہےکہ یسوع کےدَور کے لوگوںنے جہالت کی وجہسے معجزات پرایمان رکھا ۔تاہم ، یوسف(متی۱:۱۹)اورمریم (لوقا۱:۳۴)،مثال کے طورپر، اچھی طرح جانتےتھےکیسے بچے پیداہوتے ہیں – دونوںمرداور عورت کیضرورت ہوتی ہے، اگرچہ وہ جرثوموںاور بیضہ کےبارے میں یقینیتفصیلات نہیںجانتے تھے ۔اُنھوں نے کنواریکے حمل کے اعلانپر سوال اُٹھایاکیونکہ وہ زندگیکے حقائق نہیںجانتےتھے ، اِسوجہ سے نہیںکیونکہ وہ نہیںجانتے تھے کیونکہاُنھوں نے کچھنہ کیا !


اِسیطرح، معجزاتٹھیک طرح سےفطرت کے قوانینکے اندر وقفوںکے طورپر خیالنہیں کیے جاتے، بلکہ اُن میںاضافے کے طورپر۔ پس معجزات کوغلط ثابت کرنےکے لئے ، ڈارونکو ثابت کرنےکی ضرورت تھیکہ فطرت میں سبموجود ہے ، یعنیخُدا کے بغیرعام قوانین سےباہر عمل کرنےکے قابل ہے جسکی بدولت وہاِسے تھامتاہے (کلسیوں۱:۱۵)۔5


۳۔ ڈارون نے مستقبلکی عدالت کیکلام کے مطابقتعلیم کی حقارتکی


لامحدودقدوس خُدا کےخلا ف گناہ یقیناًسنجیدہ ہے ۔خُدا کا کاملانصاف مطالبہکرتا ہے کہ آیامحدود گنہگارکو یقیناً ایکلامحدود دورانیےکے لئے سزا برداشتکرنی چاہیے ،یا ایک لامحدودنعم البدل کویقیناً سزابرداشت کرنیچاہیے جس کے ہممستحق ہیں۔


اُسنے لکھا ،

میںبے شک مشکل سےسمجھ سکتا ہوں کیسے کوئی شخصمسیحیت کے سچہونے کی خواہشکر سکتا ہے ؛کیونکہ اگر اِسطرح ہے تو صافزبان کی تحریرظاہر کرتی ہےکہ انسان جوایمان نہیںرکھتے ، اور یہمیرے باپ ، بھائیاور تقریباًتمام میرے اچھےدوست ، ابد تکسز ا پائیں گے۔ اور یہ ایکمردُود الہٰیتعلیم ہے۔‘4


تبصرہ:اگرڈارون اپنیبائبل پڑ ھ چکاتھا جس طرح وہپالی کو پڑھ چکاتھا ، تو وہ جانجاتا کہ یہ فرماتیہے :

خُداونداپنے وعدہ میںدیر نہیں کرتا۔۔۔۔ بلکہ تمہارےبارے میں تحملکرتا ہےاِس لئےکہ کسی کی ہلاکتنہیں چاہتا بلکہیہ چاہتا ہے کہسب کی توبہ تکنوبت پہنچے ۔‘‘(۲۔پطرس ۳:۹)۔حقیقت میں ،خُداوند یسوعمسیح کو گناہکی خاطر مرنےکے واسطے بھیجنےکی بدولت (یوحنا۱:۲۹)،خُدا باپ نےابدی سزا سےبچنے کی راہمہیا کی ۔


ڈارونیہ دکھانے میںبھی ناکام ہوتاہے کہ کیوں سزاناانصاف ہے ،’غصے ‘ سے دلیلکے مغالطے پرانحصار کرنےکی بجائے ۔ تاہم، لامحدود قدوسخُدا کے خلافگناہ لامحدودسنجیدہ ہے ۔خُدا کا کاملانصاف مطالبہکرتا ہے کہ آیامحدود گنہگارکو یقیناً لامحدوددَور تک سزابرداشت کرنیچاہیے ، یالامحدودمتبادلکو یقیناً سزابرداشت کرنیچاہیے جس کے ہممستحق ہیں ۔ یہکام خُدا – آدمیسوع کے ذریعےخود پر دنیا کےگناہ اُٹھانےکی معرفت پوراکر چکا ہے (یسعیاہ۵۳:۶)۔6


۴۔ ڈارون نے سوچاکہ فطری چناؤنے خودبخودنمونے کو تیارکیا


اُسنے لکھا ،

فطرتمیں نمونے کیپُرانی دلیل، جو پالی کےذریعے پیش کیگئی ، جو مجھےماضی میں بہتجامع دکھائیدیتی تھی ، ناکامہو گئی ہے ، ابیعنی فطری چناؤکا قانون منظرعام پر آ چکا ہے۔ مثال کے طورپر، ہم مزید بحثنہیں کر سکتےکہ خول کا خوبصورتجوڑ کسی زبردستخالق کے ذریعےبنا ہے ، انسانکی بدولت دروازےکا جوڑ بنانےکی مانند – فطرتمیں ہر شے مقررہقوانین کا نتیجہہے ۔ ‘4،7


تبصرہ:چارلسغلط ہے ۔ فطریچناؤ ’غیر مناسب‘آبادی کے افرادکے چننے کی وجہسے ہے ۔ یہ باتجین کے سابقہاَندیکھے ملاپسے دیکھی جاسکتی ہے جو تخلیقسے لے کر ہمیشہموجو د ہیں اورلاتبدیل رہتےہیں ۔ تاہم ، یہصرف موجود جینیاتیمعلومات پر عملکر سکتے ہیں ،اور کوئی نئیچیز پیدا نہیںکر سکتے ۔ اِسےنمونے کے ساتھکچھ واسطہ نہیںرکھنا ۔ اوراتفاقاً ، آپنے فطری چناؤکو معلوم نہیںکیا ۔ ایڈورڈبلائتھ ، ایکتخلیق پرست نے، اِس کا مشاہدہکیا اور اِس کےبارے میں ۱۸۳۵سے ۱۸۳۷ میںلکھا ۔ 8


۵۔ڈارون نے سوچاکہ فطری چناؤ، خُد اپر ایمانکی بجائے ، دونوںدنیا میں خوشیاور غربت کا سببہو سکتی ہیں


اُسنے لکھا ،

اگراِس نتیجہ کیسچائی کو اجازتدی جائے ]مثلاًدنیا میں غربتکی بجائے زیادہخوشی ہے [،یہ اِن اثراتکے ساتھ ہم آہنگہوتی ہے جن کیہمیں فطری چناؤسے توقع ہو سکتیہے ۔ اگر کسیبھی انواع کےسب افراد فطریطورپر بہت حدتک دُکھ اُٹھائیںوہ اپنی نسل کوبڑھانے کو نظرانداز کریں گے۔۔۔۔‘ تب اُسنے اضافہ کیاکہ بہت سارےہوشیار انسانکم ہی دکھ اُٹھاتےہیں۔ ایسا دکھ، فطری چناؤ پرعقیدے کے ساتھقابل موازنہہے ، جو اپنےعمل میں کاملنہیں ہے ۔۔۔۔۔‘اُس نے جاریرکھا ، ’خُداکے طورپر ایکہستی اتنی طاقتوراور علم سے بھرپورہے جو کائناتپیدا کر سکتی تھی ، ہمارےمحدود ذہنوںکے لئے قادرِمُطلق اور ہرجگہ موجود ہے، اور یہ فرضکرنے کے لئےہماری سمجھ کومنحرف کرتی ہےکہ اُس کی مہربانیلامحدود نہیںہے ، کیونکہتقریباً لااختتامدَور میں نچلےدرجے کے کروڑوںجانوروں کے دکھمیں کیا فائدہہو سکتا ہے ؟ ‘4

فوٹووکی پیڈیا

عینیڈارون


تبصرہ:ڈارونکا دکھ پر نقطہٴنگاہ اُس کی دسسالہ بیٹی ،عینی کی موت کیوجہ سے انتہائیشخصی تھا۔ ۱۸۵۱میں ،جس نے فانیمیں چارلس کےعقیدے کے پرخچےاُڑا دئیے ’منصف کائنات‘ اور ’اُس کیمسیحیت کے لئےحتمی موت کی رٹلگائی ۔ ‘9لیکنچارلس کا دکھاور موت آپ کےارتقا کے نظریےکا انتہائی اہمحصہ ہیں۔


خُدانے شروع شروعمیں کامل دنیاپیدا کی ، جہاںکوئی تشدد یادرد یا موت نہیں تھی (پیدایش۱:۲۹۔۳۱)۔جب یہ بے گناہدنیا پہلے انسانکی سرکشی کی وجہسے داغدار ہوئی ، تو آدم کی نافرمانیدنیا میں حملہآور –موت کولائی (پیدایش۲:۱۷؛ ۳:۱۹)۔تاہم ، اب صلیبپر خُدا وندیسوع مسیح کیموت کی وجہ سے، ہم سب خُدا کےساتھ درست تعلقکو بحال کر سکتےہیں اور اُس کےساتھ صلح سے لطفاندوز ہو سکتےہیں ۔


ڈارونکے لئے یہ افسوسناکنتیجہ ہزاروںسال کے نظریےکے ساتھ سودےبازی کا خطرہظاہر کرتا ہے۔ کلیسیا میںڈارو ن کے سب سےبڑے مخالفینآج کے ’ارتقائیتخلیق پرست ‘بالکل وہی نظریاترکھتے تھے ، جوایمان رکھتےہیں کہ خُدا نےکروڑوں سال پہلےمختلف انواعکو پیدا کیا ۔لیکن یہ نظریہعائد کرتا ہےکہ خُدا جرثومےپیدا کر چکا تھاجنھوں نے مردہپاتھوجن کےطورپر عینی کومار دیا ۔ یہبات کلام کیتعلیم کے اُلٹہے کہ موت ’آخریدشمن ‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۵:۲۶)اور’گناہ کی مزدوری‘ (رومیوں۶:۲۳)ہے۔ یہ تعلیم عائدکرتی ہے کہ خُدافائدہ مند عاملکے طورپر جرثومےپیدا کر چکا تھا، اور یعنی گناہکے بعد یہ صرفمہلکہوگئے ۔ 10


۶۔ ڈارون نے خُداکے لئے ثبوت کےطورپر دوسروںکے باطنی اعتمادکو غلط شمار کیا







فوٹواسٹاک ایکسچینج


اُسنے لکھا :

لیکناِس پر شک نہیںہو سکتا کہ ہندو،مسلمان ]ایسے[اوردوسرے اِسیاسلوب میں ایکخُدا کے وجودمیں مساوی قوتکے ساتھ بحث کرسکتے ہیں ، یابہت سارے معبودوںکی ، یا جس طرحبدھ مت خُدا پرایما ن نہیںرکھتے ۔ بہتسارے جاہل قبائلبھی ہیں جو اِسپر ایمان رکھنےکی کسی سچائیکے بارے میںنہیں گنے جاسکتے جسے ہمخُدا کہتے ہیں:وہبے شک روحوں یاہوائی چیزوںپر ایمان رکھتےہیں ، اور اِسکی وضاحت ہوسکتی ہے ، جسطرح ٹلر اورہربٹ سپنسر دکھاچکے ہیں ،11کیسےایسا عقیدہ اِسیطرح بھرپا ہوگا ۔


تبصرہ:کلامپر ایمان رکھنےوالے مسیحی بےشک خُدا کے ساتھاپنے تعلق کےبارے میں باطنیاعتما د رکھتےہیں ۔ وہ اپنےگناہوں کے بارےمیں خُدا کےساتھ مثبت عہدرکھتے ہیں (نظریےکے منفی ذہنیتباہی سے منفردکے طورپر )۔ایسا ہے کیونکہمسیحیت کے دلمیں گناہ کیقیمت مسیح کیموت اور جی اُٹھنےسے چکائی جا چکیہے ، اور یوںخُدا راستاً گناہ معاف کرسکتا ہے (۱۔یوحنا ۱:۹)اوریوں اُن سب کوذہنی اطمینان بخشتا ہے جواُس کے پاس یسوعمسیح کے وسیلہسے آتے ہیں ۔ہندو مذہب،اسلام ، بدھ متاورحیوانی مذاہبایسی کوئی ضمانتمہیا نہیں کرتے، کیونکہ کسیدوسرے مذہب کےپاس گناہ کےمسئلے کا کوئیمناسب جواب نہیںہے ۔


اِبتدائیمسیحیوں کےباطنی اعتمادکبھی پھل دا رنہ ہوتا جب تکناقابلتردید تاریخیثبوت کہ یسوعمردوں میں سےجی اُٹھاپس ِ پشت نہ ہوتا۔ کم ازکم سترہتہذیبی حقائقہیں جو پہلی صدیمیں مسیحیت کو ڈبو چکے ہوتےاگر یہ ثبوت نہہوتا ۔ 12


۷۔ڈارون نے ’اعلیٰمناظر کو ‘ (برازیلکے جنگلوں کیمانند)خُداکے لئے ثبوت کےطورپر غلط شمارکیا


تبصرہ:کلاممیں ، داؤد نےفطرت میں ثبوتدیکھا جس نےاُسے خُدا کیطرف اشارہ کیا(زبور۱۹:۱)۔ڈارون اپنےبیسویں سال کےدرمیان میںبرازیل کے جنگلمیں ایسا ہیمحسوس کر چکاتھا ، لیکن بعدکی زندگی میںنہیں جب وہ اپنےارتقائی نظریےکے ساتھ ایسےتمام جذبات کوبجھا چکا تھا۔ مسیحیوں کےطورپر ، ہمیںباخبر ہوناچاہیے کہ ہمارے موڈ ،ہماریبھوک ، ہماریصحت ، وغیرہ کےساتھ ہمارےجذبات بڑھتےگھٹتے ہیں ،لیکن ہمارامسیحی ایمانانحصار کرتاہے خُدا اپنےکلام ، کتابمقدس میں کیافرما چکا ہے ،اِس پر نہیں ہمکیا محسوس کرتےہیں ۔


۸۔ ڈارون نے عقلکے لئے انسانکی صلاحیت کوغلط شمار کیا


ڈاروننے مانا کہ ’پہلیوجہ‘اندھے موقعےسے زیادہ متاثرکن خیال تھی ،لیکن تب لکھا ، ’انسان کاذہن ، جو ، جیسامیں مکمل ایمانرکھتا ہوں ،اتنے سست ذہنسے ترقی پا چکاہے جو سب سے کمتر جانور رکھتےتھے ، یقین کریںجب یہ ایسے بڑےبڑے فیصلے کرتاہے ؟‘


تبصرہ:ہمجانتے ہیں کہاِس بات کا کہدنیا حادثے سےپیدا ہوئی ہےصفر موقع ہے ،اور پروٹین کےاتفاقاً مل کےزندگی کو بنانےکا صفر موقع ہے۔ پہلی وجہ کےلئے ثبوت کومنسوخ کرنا اپنےذاتی نظریے کوفروغ دینا تھا۔ حقیقت میں ،وجہ کیوں انسانکا ذہن ایسیچیزوں پر غورکر سکتا ہے یہہے کیونکہ انسانجانور نہیں ہے، بلکہ خُدا کیشبیہ پر پیداہوا ہے (پیدایش۱:۲۶؛ یعقوب ۳:۹)۔


یہیادرکھنے والیبات ہے جب متشککحضرات بحث کرتےہیں – اپنے ذاتیارتقائی مفروضہجات دے کر ، کیوںہمیں اُن کے شکیخیالات پر سچہونے کا یقینکرنا چاہیے ؟فطری چناؤ صرفبچ جانے والیاقدار پر کامکرتا ہے ، منطقیا سچائی پرنہیں ۔ سیایس لوئیس نےعرصہ پہلے اِسےظاہر کیا۔


۹۔ڈارون نے سوچاکہ خُدا پر ایماناولاد کی ’مستقلدل نشینی‘ نتیجہتھا


اُسنے لکھا ،

اُنکے لئے خُدا پراپنے عقیدے کوچھوڑنا مشکلہوتا ، جس طرحبندر کے لئےاپنے جبلتی خوفکو پھینکنا اورسانپ سے نفرتکو دُو رکرنامشکل ہے ۔ ‘


تبصرہ:خُدانے بنی نوع انسانکو اپنی شبیہپر پید اکیا۔ اِس لئے یہحیران کن باتنہیں ہے کہ بچےآسانی سے خُداپر ایمان رکھتےہیں ۔ حتیٰ کہیہ بچوں کو اُکساتاہے جو دل نشیننہیں کرتے ،مثلاً جاپانمیں جہاں زیادہتر بڑے خُدا کوخالق13خیالنہیں کرتے ۔ یہبھی حیران کنبات نہیں ہے کہبعد کی زندگیمیں بہت سارےلوگ دہریے بنجاتے ہیں جب وہسرکاریسکولوںاور میڈیاسے سیکھتے ہیںکہ وہ گڑھے کےمینڈک سے زیادہکچھ نہیں ہیں۔


ڈارونکی دلیل جینیاتیمغالطہ پیش کرتیہے – یعنی اپنےذریعے کے نقشِ قدم پر چلتےہوئے عقیدے کوغلط ثابت کرنےکی کوشش کی غلطی، مثال کےطورپر کی کیول نےسوچا (درست)بینزینکی گول ساخت (سی۶، ایچ ۶)مالیکیولاپنی دُ م کوایک سانپ نگلرہا تھا کے خوابکے بعد تھی ،لیکن کیمیا دانکو بینزین کےتجزیے کے لئےسانپوں کی درستتحقیق کے بارےمیں فکر مندہونے کی ضرورتنہیں !لوگغلط وجوہات کیبنا پر ٹھیکباتوں پر ایمانرکھ سکتے ہیں۔


نتیجہ


مسیحیایمان غیر منطقینہیں ہے اور اِسکی تائید منطقاور وجہ کے ذریعےسے ہوتی ہے ۔


ہماراایمان خُدا کےکلام پر مبنیہے ، اور کوئیبنی نوع انسانکبھی ثابت کرنےکے قابل نہیںہوگا آیا خُداوجود رکھتا ہےیا نہیں (عبرانیوں۱۱:۶)،جس طرح یہ باتتب اُسے خُداسے برتر بنا دےگی ۔ تاہم مسیحیایمان غیر منطقینہیں ہے اور اِسکی منطق اور وجہسے تائید ہوتیہے (رومیوں۱:۱۸۔۲۰؛ ۱۔ پطرس ۳:۱۵)۔ڈارون نے منطقیمغالطے سرزدکیے ، اور اُسکی خُدا کے خلافدلائل ناکامہوتے ہیں کیونکہاُس نے اِس ثبوتکو مسترد کیاکہ خُدا ، دونوںاپنے کلام میںاور فطرت میںمہیا کر چکا ہے۔


مزیدمطالعہ


چارلسڈارون سوال وجواب

مسیحیحمائتی :ایمانکے دفاع میںسوال و جواب

Re

ferences<

  1. This argument was first used by Cicero (c. 106–43 BC) who wrote: ‘[W]hen you look at a sun-dial or a water-clock, you infer that it tells the time by art and not by chance; how then can it be consistent to suppose that the world, which inludes both the works of art in question, the craftsmen who made them, and everything else besides, can be devoid of purpose and reason?’ (Cicero, De Natura Deorum, ii. 34, Loeb Classical Library, Harvard, p. 207, 1951.) Return to text.

  2. Paley’s writings were required reading for Darwin’s B.A. degree at Cambridge, 1828–31, acquired when he was 22. Return to text.

  3. Life and Letters of Charles Darwin, C. Darwin to John Lubbock, 15 November, 1859, D. Appleton and Co., New York, Vol. 2, p. 15, 1911. Return to text.

  4. The Autobiography of Charles Darwin, (with original omissions restored, edited with appendix and notes by his grand-daughter Nora Barlow), Collins, London, ‘Religious Belief’, pp. 85–96, 1958. Return to text.

  5. For more about miracles, see Sarfati, J., Miracles and science, , 1 September 2006. On the reliability of the Gospels, see CMI’s Bible Q&A; . Return to text.

  6. See also Good news, . Return to text.

  7. Darwin here added a reference to his book On the Variation of Domestic Animals and Plants, in which he argues that if the shape of stone fragments (that a builder might use) deposited at the bottom of a precipice depends on factors such as the type of rock, lines of cleavage, and the action of storms and earthquakes, rather than on divine preordination, how then can it be maintained that God specially ordained each of the innumerable variations in our domestic animals and plants? See , 21 August 2007. Return to text.

  8. Edward Blyth was one of several scientists who wrote about natural selection before Charles Darwin did. See Grigg, R., Darwin’s illegitimate brainchild, Creation 26(2):39–41, 2004. Return to text.

  9. Desmond, A. and Moore, J., Darwin, Penguin Books, London, p. 387, 1992. Return to text.

  10. See Batten, D., Ed., Catchpoole, D., Sarfati, J. and Wieland, C., The Creation Answers Book, ch. 6, ‘How did bad things come about?’ Creation Ministries International, Queensland, Australia, 2007. Return to text.

  11. Herbert Spencer believed that religion originated in the worship of ancestors appearing as ghosts, and arose from a fear of the dead who had passed beyond the control of the living Return to text.

  12. Holding, J.P., The Impossible Faith, Xulon Press, Florida, USA, 2007. Return to text.

  13. See Children believe in God, Creation 22(2):7, 2000. Return to text.