Explore
Also Available in:
8299-jewish-copy

نام میں کیا ہے؟

پیدایش باب ایک اور دو میں نام خُدا میں: کوئی اختلاف نہیں ہے!

از

Translated by Evangelist Michael irfan_Pakistan

کلام مقدس کے وقتوں سے کسی شخص کا نام گہرا اثر رکھتا تھا اور اکثر اس کی ذات کو ، اس کے کردار یا اس کی قسمت کو بتاتا تھا۔1 کلام مقدس میں خُدا کے لئے بہت ساری اصطلاحیں ہیں ، ساری کی ساری خاص مطالب اور اثر رکھتی ہیں۔ جب کہ پہلی کتاب، پیدایش، مختلف اصطلاحیں استعمال کرتی ہے، بہت ہی اچھی وجوہات کے لئے، جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں۔

ایلو ہیم

پیدایش باب ۱ میں ، موسیٰ 2 نے خُدا کے لئے لفظ ایلوہیم استعمال کیا۔ یہ لفظ ایل کا جمع ہے، جو انگلش میں خُدا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یونانی میں تھیوز اور لاطینی میں ڈیوز ہے۔ ایل کا مطلب ہے ’مضبوط‘ اور جلال قدرت اور خُدا کی قوت جو کہ خالق ہے اور ساری فطرت اور اِس کل کائنات کا حکمران ہے پر زور دیتا ہے۔

یہ عبرانی میں جمع، ایلوہیم، حقیقی مطلب ’ایک سے زیادہ دو‘؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ’شروع میں خُداؤں نے تخلیق کیا ۔ ۔ ۔ ‘ ’کیونکہ یہ یہاں (اور پرانے عہد نامہ میں ۲۰۰۰ سے بھی زیادہ) واحد استعمال ہوا ہے۔ مثلاً واحد فعل کے ساتھ (یا اضافی)۔ نہ ہی یہ اس کے جاہ و جلال کی جمع کے طورپر ، جس طرح کہ ’ہم شاہی ہیں‘ حتیٰ کہ یہ مطلب کو شامل کرتا ہے کہ خُدا تمام دنیا کا قادر مطلق حکمران ہے۔ پھر بھی ایلو ہیم کا استعمال ہمیں بتاتا ہے کہ خُدا کی بذات خود ذات میں جمع کا صیغہ موجود ہے۔ (دیکھیں کیا پیدایش باب ایک میں تثلیث ملتی ہے؟) ایلوہیم نہایت عمدہ خطاب ہے اور اس طرح موسیٰ کے لئے صحیح اصطلاح جو خُدا کے لئے استعمال کرتا ہے۔ جس نے پوری کائنات اور تمام زندہ اشیا جن میں لوگ شامل ہیں کو بیان کرتا ہے۔ خُدا کی قدرت دنیا کے وسیع براعظموں میں صاف طورپر دیکھی جا سکتی ہے، اور جس طرح کہ زمین پر زندگی کی حیران کن مشکلات، چھ دنوں کے مختصر وقت میں یا ہو سکتا ہے اگر وہ اس سے زیادہ استعمال کر چکا ہوتا ، منصوبہ کو مکمل کیا۔ اسی طرح اس کی اچھائی کے لئے، جو تباہ کن ہو گی اگر خُدا گناہ سے پہلے موت کو رکھ چکا ہوتا، یا حتیٰ کہ موت کے وسیلہ سے تخلیق ہوتی۔ موت آخری دشمن ہے‘ (۱۔ کرنتھیوں ۱۵: ۲۶) اور ارتقائی جوہر کا لمبا دَور۔

ہم اس قدوس اور جلالی کے آگے جھکتے ہیں جو ایلو ہیم کر چکا ہے۔

ناموں کی تکریم

قدیم دور میں نام ایک اہم موضوع تھے۔ مصری کسی نام کو خاص روحانی، ہمیشہ رکھنے کے لئے خیال کرتے تھے۔ اپنے دیوتاؤں کی عزت کی وجہ سے وہ اکثر کسی دیوتا کا نام اپنے باطن کے اندر ملحق کرتے تھے، مثلاً ٹیوٹن خامن، (آمین کا زندہ مجسمہ)۔

خصوصی طور پر مردانہ یا زنانہ اختتام کسی بچے کا نام مختص کرنے میں اکثر روائتی تھے، لیکن شاہی نام نر یا مادہ کی تمیز نہیں رکھتے تھے ۔ بعض اوقات چھوٹا نام مثلاً ’لال‘ کسی لال بھورے بالوں پر لاگو ہوسکتا تھا، بالکل جس طرح آج ہے۔ نام آمین ہوٹو عام طور پر امینی کا مخفف تھا۔

عبرانی نام بھی بڑی اہمیت رکھتے تھے، مثال کے طورپر یسوع (پرانے عہد نامہ یشوع) کا مطلب ’خُدا بچاتا ہے‘ ہے۔ نام رکھنے کا عمل احکام میں روائت تھا۔ ۲ سلاطین ۲۳: ۳۴ بتاتا ہے کہ مصری فرعون نِکوہ نے اِلیاقیم (’ایل اٹھاتا ہے‘) اور شاہ یہوداہ کو مقرر کیا، اور اُسے یہویقیم (’یہواہ پالتا ہے‘ نام رکھ دیا)، اُس پر پورے زور سے اپنا اختیار جتانے کے لئے، آدم کو تمام جانوروں کو نام دینے کا کام دیا گیا تھا۔ یعقوب کا اپنا نام اُس فرشتے کے ہاتھوں اسرائیل بدل دیا گیا جس کے ساتھ وہ کشتی لڑا تھا اور ابرام ابرہام کا پہلا نام تھا۔ خدا کے نام اُس کی خصوصیات کو اس طریقے سے ظاہر کرتے ہیں جسے ہم سمجھ سکتے ہیں۔ ناموں کی پوری اہمیت جدید مغربی تہذیب میں بڑے پیمانے پر کھو چکی ہے۔ بچوں کے نام رکھنا اکثر سادگی سے کسی روحانی اہمیت کی بجائے کسی خاص خوشی کے موقع کے لئے پسند پر انحصار کرتی ہے۔

یاہ وا = یہواہ

پیدایش باب۲میں، آیت ۴ سے، موسیٰ عبرانی اصطلاح یاہ واہ کا اضافہ کرتا ہے۔ یاہ واہ اکثر یہواہ کے طور پر ترجمہ ہو چکا ہے اور چھوٹے حروف خُداوند اور بڑے حروف میں لکھا جاتا ہے۔4 یاہ واہ حقیقی طور پر زندہ خُدا کا نام ہے۔5 یہ موسیٰ پر جلتی ہوئی جھاڑی کے واقع پر ظاہر ہوا تھا (خروج ۳: ۱۳۔ ۱۵)۔ اس کا مطلب ہے ’میں جو ہوں سو میں ہوں۔‘ اور اس طرح ’ذاتی ایک کی موجودگی‘ کو بیان کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ایلوہیم اپنی مستقل موجودگی کو رکھتا ہے، اور ایمان سے بھرپور اور ناقابل تبدیل ایک ہو۔ جو اپنے کلام میں ہمیشہ سچا ہے، اور کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے کا اعلان کرتا ہے۔6

یہ نام رحیم خُدا، فضل اور قادر کو اپنے چنے ہوئے لوگوں کے ساتھ رفاقت کو اور ان کے محافظ اور ان کی پرستش کے مرتکز کو بیان کرتا ہے، جس طرح کہ لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلق، خصوصاً ایمانداروں؛ بلکہ مخالفوں کے ساتھ، بھی جیسے فرعون، ان کے منصف کے طورپر بتاتا ہے (خروج ۷: ۱۶ ایف ایف)۔

پیدایش ۲

کیوں موسیٰ نے پیدایش باب ۲ میں خُدا کے لئے مختلف اصطلاح کو استعمال کیا؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ دو مختلف (اور ناقابل تردید) پیدایش ۱ اور ۲ باب میں تخلیق کے وجود ہیں؟۔

جواب: پیدایش باب ۲ میں، موسیٰ دنیا کے پہلے انسانی جوڑے کے ساتھ خُدا کی بہت ہی پرخلوص اور ذاتی رفاقت کو بیان کرتا ہے، آدم اور حوا۔ اسے خُدا کے نام کو استعمال کرنے کی ضرورت تھی، یاہ واہ، یہواہ جتنی بار پیدایش باب ۲ میں استعمال ہوا ہے۔ ایلوہیم کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، جیسے، یاہ واہ، ایلوہیم ، اور ترجمہ ہے ’خُداوند خُدا‘۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایلو ہیم ، شاہی خالق، یاہ واہ ہے، ایک ’جو اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ ذاتی رفاقت جو اس کے حضور چلتے اور اس کے ساتھ بات کرتے ہیں۔‘ 7

انسانی تخلیق کو ہمیں دکھاتے ہوئے، چھٹے دن جیسے باب ایک میں سیریز کے آخری مرحلے پر، موسیٰ اب ہمیں باب دو میں ہمیں کچھ تفصیل دیتا ہے۔

پیدایش ۲: ۴۔ ۱۴ باغ عدن اور آدمی پر توجہ کرتا ہے، جہاں اُسے زندہ رہنا تھا۔ آیت ۷ بتاتی ہے کہ خُدا نے کیسے آدم کو زمین کی مٹی سے بنایا ، اورس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور وہ جیتی جان ہوا۔ آیات ۸۔ ۱۴ ہمیں بتاتی ہیں کہ عدن کیسا تھا، اس میں مختلف اقسام کے پودے ندیوں کے کنارے موجود تھے جو وہاں پر بہتا تھا۔ تب آیات ۱۵۔ ۱۷ بیان کرتی ہیں یہواہ خُدا نے آدم سے خود بات چیت کی؛ اور اُسے عدن کی حفاظت اور اُس کا خیال رکھنے کی ذمہ داری عطا کی، اور اُس سے کہا کہ وہ باغ کے ہر درخت کا پھل کھا سکتا ہے سوائے ’نیک و بد‘ کی پہچان کے درخت سے۔

آگے، پیدایش ۲: ۱۸۔ ۲۰ میں، ہمیں بتاتا ہے کہ جانوروں میں سے آدم کے لئے اُس کی مانند کوئی نہ ملا جنھیں خُدا بنا چکا تھا اور جن کے نام آدم نے رکھے۔ پیدایش ۲: ۲۱ ۔ ۲۴ بیان کرتا ہے یہواہ نے آدم کا ذاتی طور پر خیال رکھا؛ اُسے ایک بیوی عطا کرتے ہوئے۔ اس دل کی قربت میں لاتے ہوئے، اور اُس کی شادی کرائی۔

ناقدین جو باب ۲ کو ایک سیکنڈ پر باب ایک کے برعکس مخالف بناتے ہیں اس بات میں ناکام ہو جاتے ہیں جو موسیٰ نے سادگی سے پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بھول چوک اور غلطی کو سورج، چاند، ستارے، سمندر، باب دو میں دکھاتے ہیں کہ موسیٰ دوسری تخلیق کے بارے میں لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

بعض لوگ پیدایش ۲: ۱۹ میں نقص پاتے ہیں کیونکہ یہ زمین کے جانوروں کو پرندوں سے پہلے ظاہر کرتی ہے اور یہ اُن کی پیدایش ایک باب میں تخلیق سے مختلف ترتیب ہے۔ تاہم، یہ پھر اُن کی تخلیق کی کہانی ہونے کا معنی نہیں رکھتی۔ ’زمین کے جانور‘ ظاہر نہیں کیے گئے ، اور فعل حال مکمل کا استعمال ’بن چکے تھے‘ پیدایش ۲: ۸ اور ۱۹ میں کلام مقدس کے بعض تراجم کے اندر (جسے عبرانی اجازت دیتی ہے) موثر طور پر تنقید کا جواب دیتا ہے کہ پیدایش ۲ میں واقعات کی ترتیب پیدایش ایک سے مختلف ہے۔ سب سے زیادہ یقینی وضاحت یہ ہے کہ آیت ۱۹ وہ ترتیب پیش کرتی ہے جس میں خُدا جانوروں کو آدم کے پاس نام رکھنے کے لئے لایا تھا۔

مختلف مصنفوں کے بارے میں؟

دوسرے نقاد کہتے ہیں کہ الفاظ ’ایلوہیم اور یہواہ دو مختلف مصنفوں (P) اور (J) ، کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو موسیٰ کے دور کے بعد کافی دیر زندہ رہے۔ یہ دستاویز یا جی ای ڈی پی مفروضے کا حصہ ہیں جو تجویز کرتا ہے کہ توریت کی مختلف گمنام مصنفین کی بدولت لکھی گئی تھی جو موسیٰ کے اور دو سو سال تک زندہ رہے۔8 ایک نمایاں وکیل جولیس ویل ہاؤسن تھا (۱۸۴۴ تا ۱۹۱۸)۔ جس نے کہا کہ ’ایک خُدا‘ کا نظریہ موسیٰ پر ظاہر نہیں کیا گیا تھا بلکہ کثیر معبودی ، جانور پرستی، آباؤ اجداد کی پرستش وغیرہ سے فروغ پایا تھا۔ یوں موسیٰ کی بجائے بعد کے مصنفین کو ڈھونڈنے یا جاننے کی ضرورت ہے۔ 9

تاہم، یہ خیال مکمل طور پر جھوٹا ہے۔ تاریخ دونوں عبرانی اور دنیاوی ، ان فرضی مصنفین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے – نہ اُن کے نام نہ ہی اُن کی معرفت کسی دوسرے کاموں کو۔ ’تعلیم‘ خیال کو فروغ دینے کے لئے استعمال ہوئی کا عدالت سے باہر مذاق بنے گا اگر کسی دوسری پرانی کتاب پر لاگو کیا جائے۔ 10

ہم یہواہ کے کلام ، خُدا کے خالق پر بھروسہ کر سکتے ہیں جو ہمیشہ تھا ، اب ہے ، اور ابد تک رہےگا۔ پیدایش میں کلام کے مطابق دنیا کا خیال ہمیں ابتدا کی ٹھیک تاریخ دیتا ہے – کائنات ، زمین ، اور بنی نوع انسان کی۔

کیا پیدایش باب۱ میں تثلیث کے کردار کو رکھتی ہے؟

پیدایش باب ۱ میں ایلوہیم کا استعمال (ایل کی تین یا زیادہ جمع صیغے = خُدا) کو تجویز کرتا ہے کہ خُدا کی شخصیت کے بارے میں کچھ جمع صیغہ موجود ہے۔ اور ایلوہیم کے بارے ساتھ واحد فعل کا استعمال (’تخلیق کیا‘ = bara، amar = ’کہا‘، raah =’دیکھا‘؛ وغیرہ)۔ پورے پیدایش ایک باب میں خُدا کی واحدنیت جمع صیغے کو منسلک کرتی ہے ؛ مثلاً خُدا ایک ہے، مگر دوسرے شعور میں ایک سے زیادہ ہے۔

پیدایش ۱: ۲ بیان کرتی ہے ’خُدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی‘۔1

تخلیق خُدا کے بولنے کا نتیجہ ہونے کے طور پر بیان کی گئی ہے، مثلاً اُس کے کلام کی وجہ سے۔ نئے عہد نامہ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ خُداوند یسوع مسیح کے ناموں میں سے ایک نام ’کلام‘ ہے (یوحنا ۱: ۱۔ ۱۴)، اور یعنی خُدا نے ہر چیز کو اس کے وسیلہ سے پیدا کیا۔ یوں، کتاب مقدس کے بالکل پہلے باب میں ہمارے پاس تثلیث کی پہلی تجویز ہے، جو ہمارے لئے باقی کتاب مقدس کے اندر بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔

ہمیں ’شواہدی متن‘ کے طورپر صحائف کے حوالہ جات استعمال کرنے پر محتاط ہونا چاہیے جو اس مقصد کے ساتھ نہیں لکھے گئے تھے، ذہن میں، تاہم، باقی کتاب مقدس ، خصوصی طور پر نیا عہد نامہ، ہم پر تثلیث کی الہٰی تعلیم منکشف کرتا ہے (مثلاً متی ۳: ۱۶۔ ۱۷)۔ ہم واپس پیدایش میں نظر ڈال سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ اصطلاحات اور الفاظ جو موسیٰ کے آسمانی الہام کے ذریعے استعمال کیے بعد کے مکاشفے کے ساتھ غیر مستقل نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں تثلیث پر بعد کی تعلیم کا پیشتر عکس ہے۔ عبارت کی طرف واپس آئیں۔

References and notes

  1. The Hebrew word ruach can mean ‘wind’, ‘breath’ or ‘spirit’; the context determines the correct meaning. The Hebrew construction here precludes the meaning from being ‘a wind from God was moving …’, as some liberals claim.
  2. Thus 'And God said …’ (Genesis 1:3, 6, 9, 11, 14, 20, 24, 26).
  3. E.g. John 1:3; Colossians 1:15–16; Hebrews 1:2.

Further reading

References and notes

حوالہ جات

  1. E.g. Adam sounds like, and may be related to, the Hebrew for ground, adamah; Jesus is the Greek form of Joshua which means the Lord saves (Matthew 1:22). A change in a person’s character or status could warrant a change of name, e.g. Abram = exalted father became Abraham = father of many (Genesis 17:5). Return to text. متن پر واپس جائیں.
  2. Moses, under divine inspiration, was the author/editor of Genesis. See Grigg, R., Did Moses really write Genesis? Creation20(4):43–46, 1998. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  3. Linguist Dr Charles Taylor says, ‘Nobody is in a position to show that in Moses’ day or earlier, people were in the habit of addressing kings and princes in the plural. In fact, there is no evidence at all from the Bible itself, and the Bible is one of the oldest books.’ Taylor, C., The First Hundred Words, (above) The Good Book Co., Gosford, Australia, p. 3, 1996. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  4. The name had four Hebrew letters, which are the equivalent of YHWH or JHVH. The Hebrew alphabet has no vowels. ‘Points’ are used to indicate the pronunciation. While the likely pronunciation was Yahweh or Yahveh, Jews eventually regarded this name as being too sacred to pronounce. They inserted the vowel points for Adonai to tell readers to substitute this word. The English word ‘Jehovah’ is the result of a misunderstanding of this history. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  5. The many other terms, e.g. God the Father, Rock, King, Holy One, El Elyon (= the Most High God), Adonai (= Lord and Master), etc., are titles or descriptive expressions rather than names. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  6. Cf. Hebrews 13:8, where this description of divinity is also given to the Lord Jesus Christ. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  7. Kaiser, W.C., Davids, P.H., Bruce, F. and Brauch, M.T., Hard Sayings of the Bible, InterVarsity Press, Illinois, p. 88, 1996. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  8. The key to understanding the correct meaning of any passage in the Bible is to ask, ‘What was the intention of the author?’ Return to text. متن پر واپس جائیں.
  9. Sadly, many Bible colleges and seminaries today approvingly teach this spurious doctrine, which postulates that the whole of the Old Testament is a gigantic literary fraud, and calls into question both the integrity of Moses and the divinity of the Lord Jesus Christ, who frequently spoke of Moses’ writings or ‘the Law of Moses’, e.g. Luke 24:27, 44; John 5:45–47; 7:19. Return to text. متن پر واپس جائیں.
  10. For further refutation, see ref. 2. Return to text. متن پر واپس جائیں.